تانیہ
(چورسو، اتراکھنڈ)
آزادی کے امرت کال میں مرکزی اور ریاستی حکومتیں ملک کے تمام باشندوں کے لئے پینے کے صاف پانی اور بیت الخلاء جیسی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مل کر کام کر رہی ہیں۔ آج ملک کے بیشتر دیہی علاقوں کی عوام جو برسوں سے بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کی زندگی گزار رہی تھی، کو سہولیات ملنا شروع ہوگیا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر تعلیم اور روزگار پر پڑا ہے۔ ان بنیادی ضروریات کی تکمیل سے نقل مکانی جیسے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ملک میں اب بھی بہت سے دور دراز دیہات ہیں جہاں کم سے کم بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ جہاں تعلیم اور روزگار کی کمی کے باعث لوگوں کی نقل مکانی جاری ہے۔ایسا ہی ایک گاؤں پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کا چورسو ہے۔ جہاں کچھ لوگ روزگار کے لیے اپنے اہل خانہ کے ساتھ شہر ہجرت کرنے پر مجبور ہیں، وہیں کچھ اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے شہر ہجرت کررہے ہیں۔ اس گاؤں کی کل آبادی تقریباً 3584 ہے۔ جبکہ شرح خواندگی 75 فیصد سے زیادہ ہے۔ گاؤں میں اونچی اور نچلی ذات والوں کی تعداد تقریباً برابر ہے۔ لیکن اگر ہم بنیادی سہولیات کی بات کریں تو یہاں اس کا شدید فقدان ہے۔ مقامی سطح پر نہ تو معیاری تعلیم میسر ہے اور نہ ہی روزگار کا کوئی خاص ذریعہ۔ گاؤں کے زیادہ تر وجوان روزگار کے لیے شہروں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ وہ دہلی، ممبئی، گجرات اور پنجاب جیسے شہروں میں ہوٹلوں، ڈھابوں اور کمپنیوں میں معمولی اجرت پر چوتھے درجے کے ملازمین کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے ساتھ ہی گاؤں کے 35 فیصد لوگ اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے اپنے خاندانوں کے ساتھ میدانی علاقوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔
اس حوالے سے 18 سالہ نوجوان سوربھ کا کہنا ہے کہ”میں 12ویں کے بعد ہی شہر چلاگیا، کیونکہ مجھے اپنے خاندان کی کفالت کرنی تھی۔ گاؤں میں رہ کر کیا کرتا؟ یہاں نہ تو اچھی تعلیم ہے اور نہ ہی روزگار کا کوئی ذریعہ۔“ سوربھ کے مطابق گاؤں کے زیادہ تر نوجوان شہروں کا رخ کرتے ہیں تاکہ وہ کوئی روزگار حاصل کر سکیں اور اپنے خاندان کی ذمہ داریاں پوری کر سکیں۔ 21 سالہ دنیش کا کہنا ہے کہ ’اگر ہمارے گاؤں میں تمام سہولیات موجود ہوتیں تو آج ہم اپنے گاؤں سے نامعلوم شہر میں رہنے کے بجائے اپنے گاؤں میں ہی کام کر لیتے۔ اگر گاؤں میں ہی تعلیم کے بعد روزگار کی سہولت میسر ہو جائے تو کوئی بھی اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر شہر جانے پر مجبور نہیں ہوتا۔ لیکن یہ ہماری مجبوری ہے کہ گاؤں میں روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ نوجوان روزگار کے لیے شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔ دنیش کے مطابق آج چورسو گاؤں نوجوانوں سے تقریباً خالی ہوتا جا رہا ہے۔چورسو کی طرح آس پاس کے کئی گاؤں کے نوجوان بھی اسی راستے پر چل پڑے ہیں جو کہ انتہائی تشویشناک بات ہے۔گاؤں کی 18 سالہ لڑکی کاجل کا کہنا ہے کہ جہاں ایک طرف نوجوان روزگار کے لیے گاؤں سے ہجرت کر رہے ہیں تو دوسری طرف بہت سے لوگ اپنے بچوں کے ساتھ گاؤں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے بچے کو اگر خود دیہات میں ہی اچھی اور معیاری تعلیم میسر ہوتی تو نقل مکانی کا یہ سلسلہ رک جاتا۔ وہ کہتی ہیں کہ جو لوگ معاشی طور پر خوشحال ہیں وہ اپنے بچوں کو شہر لے جا رہے ہیں اور پرائیویٹ اسکولوں میں داخل کرا رہے ہیں۔ لیکن گاؤں کے اکثر خاندان جن کی معاشی حالت اچھی نہیں ہے، ان کے بچے گاؤں کے اسکول میں ہی پڑھنے پر مجبور ہیں۔ جہاں پرائیویٹ سکولوں کے مقابلے میں تعلیم کا معیار بہت اچھا نہیں ہے۔ کئی سکولوں میں اساتذہ کی اسامیاں برسوں سے خالی ہیں۔ جسے محکمہ تعلیم آج تک پُر نہیں کر سکا۔ ایک استاد پر نہ صرف بہت سے مضامین پڑھانے کی ذمہ داری ہوتی ہے بلکہ اسے دفتری کام کا بوجھ بھی اٹھانا پڑتا ہے اور سکول میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کا ذمہ بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ جس کا براہ راست اثر ان کی تعلیمی سرگرمیوں پر پڑتا ہے۔ اگر محکمہ تعلیم اس طرف سنجیدگی سے توجہ دے تو نہ صرف تعلیمی سطح میں بہتری آئے گی بلکہ نقل مکانی بھی رک جائے گی۔
ہجرت کا سب سے زیادہ درد والدین کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ گاؤں کی ایک بزرگ ممتا دیوی اپنا درد بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ”میں نے اپنے بچوں کی پرورش یہ سوچ کر کی کہ وہ بڑھاپے میں میرا ساتھ دیں گے، لیکن بچے روزگار کے لیے شہر گئے اور وہیں آباد ہو گئے۔ اب کبھی کبھی گاؤں آتے ہیں اور جلدی لوٹ جاتے ہیں۔ اس بڑھاپے میں ہمیں اکیلے رہنا ہے۔“ تاہم 46 سالہ رمیش رام نقل مکانی کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے ذرائع ہیں جن کے ذریعے گاؤں میں روزگار پیدا کیا جا سکتا ہے۔ دراصل نوجوانوں کو شہروں کی رونق کا نشہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بڑے شہروں میں زیادہ پیسہ کمایا جا سکتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہاں ان کا کوئی بہتر مستقبل نہیں ہے۔ جبکہ گاؤں میں ہی رہ کر روزگار کے ذرائع آسانی سے مل سکتے ہیں۔سماجی کارکن نیلم گرانڈی کا کہنا ہے کہ گاؤں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری نقل مکانی کی سب سے بڑی وجہ بن گئی ہے۔ لوگ، خاص طور پر نوجوان، روشن مستقبل اور زیادہ پیسہ کمانے کے لالچ میں دیہات سے شہروں کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ ایک ٹرینڈ بن گیا ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ گاؤں میں کوئی مستقبل نہیں ہے۔ جبکہ گاؤں کے وسائل کا صحیح استعمال کیا جائے تو روزگار کے لامحدود امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس میں سب سے بڑی سیاحت اور نامیاتی پھلوں اور پھولوں کی پیداوار شامل ہے۔ اس کے لیے حکومت کی جانب سے گرانٹ بھی دی جاتی ہے لیکن معلومات کی کمی کی وجہ سے نوجوان اس سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ اس کے علاوہ حکومت کے پاس مائیکرو اور میڈیم لیول کے روزگار کے لیے بھی بہت سی اسکیمیں ہیں، اگر نوجوان ان سے فائدہ اٹھائیں تو وہ نہ صرف بااختیار بنیں گے بلکہ دوسروں کو روزگار فراہم کرنے والے بھی بن سکتے ہیں۔ اس کے لیے متعلقہ محکمہ اور پنچایت کو پہل کرنے کی ضرورت ہے۔ دیہی سطح پر روزگار میلے منعقد کرکے نوجوانوں کو اس سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف دیہات میں روزگار کو فروغ ملے گا بلکہ نقل مکانی بھی رکے گی اور شہروں پر بڑھتے ہوئے بوجھ کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔ (چرخہ فیچرس)
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)