کندھوں سے نیچے پورا جسم مفلوج دماغ میں ایلون مسک کی کمپنی کی چپ لگوانے والے انسان کے بارے میں پریشان کن خبرآگئی

نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) ایلون مسک کی کمپنی نیورالنک کی ایجاد کردہ برین ’چِپ‘ (Chip)جس پہلے انسان کے دماغ میں نصب کی گئی ہے، وہ 30سالہ نولینڈ ارباف ہے۔ میل آن لائن کے مطابق نولینڈ ارباف کا کندھوں سے نیچے پورا جسم مفلوج ہے اور وہ اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کر رہا ہے۔
نولینڈ ارباف کے پاس ایک ’پاور وہیل چیئر‘ہے جسے وہ ایک پائپ کے ذریعے پھونک مار کر یا سانس اندر کھینچ کر کنٹرول کرتا ہے۔ اس کا میٹرس(بستر کا گدا) ریمورٹ کنٹرول سے چلتا ہے، جس میں ہوا بھری ہوئی ہے اور وہ پانی کی لہروں کی طرح چلتی رہتی ہے تاکہ نولینڈ ارباف کو ایک ہی جگہ پڑے رہنے کے نقصانات سے محفوظ رکھا جا سکے۔
ایک موٹر سے چلنے والی لفٹ نولینڈ ارباف کو پاور وہیل چیئر سے اس بستر پر لٹاتی اور اس بستر سے واپس وہیل چیئر میں بٹھاتی ہے۔ اس کے کمرے کی روشنیاں، پنکھا اور ٹی وی وغیرہ سب کچھ آواز سے کنٹرول ہوتے ہیں، جنہیں وہ بول کر آن یا آف کرتا ہے۔ 
اب نولینڈ ارباف کے دماغ میں نیورا لنک کے سائنسدانوں کی ایجاد کردہ مائیکرو چپ بھی نصب کر دی گئی ہے، جس کے ذریعے وہ موبائل فون اور کمپیوٹر کو بھی، محض اپنے دماغ کے ذریعے، آپریٹ کر سکتا ہے۔ ان دنوں نولینڈ کمپیوٹر کو اپنی ہینڈ رائٹنگ پہچاننے کی ٹریننگ دے رہا ہے۔وہ دماغ میں ہی الفاظ کو ہاتھ کی لکھائی کی صورت میں سوچتا ہے اور کمپیوٹر اس کے دماغ میں نصب مائیکروچپ کے ذریعے اس لکھائی کو اپنی سکرین پر ظاہر کرتا ہے۔ 
امریکی ریاست ایریزونا کے قصبے یوما کے رہائشی نولینڈ ارباف کا کہنا ہے کہ ایک دن وہ اسی طریقے سے ایک ناول لکھے گا۔ پہلے بندر اور پھر انسانوں پر اس چِپ کے کامیاب تجربے کے بعد نیورالنک اور ایلون مسک کی طرف سے گزشتہ سال نولینڈ ارباف کو یہ چِپ لگوانے کی پیشکش کی گئی تھی، جسے اس نے قبول کر لیا اور چِپ اپنے دماغ میں نصب کروا لی۔ نولینڈ ارباف کا کہنا ہے کہ ’’چِپ نصب کروانے کا فیصلہ بہت کٹھن تھا۔ یہ میرا دماغ تھا اور یہ آخری چیز ہے جو میرے پاس بچی ہے۔ تاہم اس چِپ کی تنصیب کے بعد میری زندگی یکسر بدل گئی ہے۔ اب میں اپنے کچھ ایسے خواب پورے کر سکتا ہوں، جن کا میں اس سے پہلے سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔‘‘

Leave a Reply

Discover more from ہمارا اخبار

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading