نفقۂ مطلّقہ کے بارے میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ

محمد رضی الاسلام ندوی

          تین دن قبل (10 جولائی 2024 کو ) ہندوستان کی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ مسلم مطلّقہ  خاتون کو اپنے سابق شوہر سے نان و نققہ حاصل کرنے کا حق ہے۔ جسٹس بی وی ناگرتھنا اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ نے تلنگانہ ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم مطلّقہ خاتون کو ضابطۂ فوج داری کی دفعہ 125 کے تحت اپنے سابقہ شوہر سے اس وقت تک کفالت حاصل کرنے کا حق ہے جب تک اس کی دوسری شادی نہیں ہو جاتی۔ ہندوستانی عدالتیں اس سے پہلے بھی ایسے فیصلے کرتی رہی ہیں جو اسلامی شریعت سے ٹکراتے ہیں۔ 1985 میں سپریم کورٹ نے شاہ بانو کیس میں اسی طرح کا فیصلہ سنایا تھا، جس پر مسلمانوں کے شدید احتجاج کے بعد اس وقت کی حکومت نے پارلیمنٹ میں ایک قانون منظور کرکے سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کو کالعدم کردیا تھا۔ اب سپریم کورٹ نے پھر اپنے سابقہ فیصلے کو دہرا دیا ہے۔

         سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اسلامی شریعت میں طلاق کے بارے میں بیان کیے گئے قوانین سے ٹکراتا ہے۔  شریعت ایپلیکیشن ایکٹ 1937 میں مسلمانوں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے عائلی قوانین : نکاح، طلاق اور وراثت وغیرہ کے بارے میں اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق عمل کرسکتے ہیں۔ ان کا یہ حق 1986 میں پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کیے گئے قانون Muslim Women (Protection of Rights on Divorce) Act میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ مسلم عائلی قانون کے مطابق طلاق یا خلع کے بعد عورت کا تعلق سابق شوہر سے بالکلّیہ ختم ہوجاتا ہے، اس لیے اس پر طلاق کے بعد تاحیات یا دوسری شادی تک سابقہ بیوی کی کفالت کی ذمے داری نہیں ڈالی جاسکتی۔ فاضل ججوں نے ضابطۂ فوج داری کی جس دفعہ 125 (جس میں بلا تفریق مذہب تمام مطلّقہ خواتین کو طلاق کے بعد گزارہ بھتّہ کا مستحق قرار دیا گیا ہے) کے حوالے سے فیصلہ دیا ہے وہ بھی درست سیاق میں نہیں ہے، اس لیے کہ اسی کے آگے دفعہ 127 میں مسلمانوں کو اس سے مستشنیٰ کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ یہ مسلمانوں پر نافذ نہیں ہوگا۔ "

         سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ شریعت مخالف ہونے کے ساتھ غیر عقلی بھی ہے۔ بہ ظاہر اس میں مسلم خواتین سے ہم دردی دکھائی دیتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ خواتین مخالفت ہے۔ اس کے ذریعے سے ان کی غیرت پامال کی گئی ہے اور ان کی زندگی اجیرن بنائی گئی ہے۔ اس بات کی وضاحت درج ذیل نکات میں کی جاسکتی ہے :

(1) سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے مطابق اگر شوہر کو معلوم ہوجائے کہ اس کا عورت سے کوئی تعلق نہیں رہے گا، اس کے باوجود اسے زندگی بھر گزارہ بھتہ بھی دینا پڑے تو وہ اسے کیوں طلاق دے گا؟! پھر تو وہ اسے ایک طرف اپنے نکاح میں رکھے گا، دوسری طرف اس کے حقوق بھی نہیں ادا کرے گا اور طرح طرح سے اسے پریشان کرنے کی کوشش کرے گا۔

(2) کوئی شخص اپنی بیوی سے نفرت کرتا ہے، اس کے ساتھ ازدواجی رشتہ باقی نہیں رکھنا چاہتا، اگر اسے معلوم ہوجائے کہ طلاق کے بعد بھی اس سے پیچھا نہیں چھوٗٹے گا، بلکہ زندگی بھر اس کا خرچ بھی اٹھانا پڑے گا تو وہ طلاق دینے کے بجائے اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے غیر اخلاقی حربے اختیار کرے گا، اس کی جان کے درپے ہوگا اور اسے قتل کرکے اتفاقی اور حادثاتی موت کا رنگ دینے کی کوشش کرے گا۔

(3) نکاح ایک سماجی معاہدہ (Social Contract) ہے۔ ایک اجنبی مرد اور اجنبی عورت ایک معاہدہ کے تحت ایک ساتھ رہنا شروع کرتے ہیں۔ وہ معاہدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے اپنی جنسی ضرورت پوری کریں گے، اولاد ہونے پر مل جل کر ان کی تربیت کریں گے اور تمدّن کی تشکیل میں حصہ لیں گے۔ طلاق یا خلع اس معاہدہ کو ختم کرنے کا نام ہے۔ دنیا کا اصول ہے کہ جب کسی معاہدے میں دو فریق شامل ہوتے ہیں تو ان پر اس کی شرائط کی پابندی معاہدہ باقی رہنے تک رہتی ہے۔ معاہدہ ختم ہونے کے بعد دونوں فریق آزاد ہوجاتے ہیں، کسی پر دوسرے کے تعلق سے کوئی ذمے داری باقی نہیں رہتی۔ طلاق کے بعد زندگی بھر شوہر پر سابقہ بیوی کے لیے گزارہ بھتّہ لازم کرنا اس یونیورسل اور متّفقہ دستور کے خلاف ہے۔ جب طلاق کے بعد مرد سے عورت کا رشتہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا تو اس پر عورت سے متعلق کوئی ذمے داری کیوں عائد کی جائے؟

           سوال کیا جاتا ہے کہ پھر مطلّقہ عورت کہاں جائے؟ اور اس کی ضروریات کیسے پوری ہوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام نے مطلّقہ عورت کو بے یارو مددگار اور بے سہارا نہیں چھوڑا ہے۔ اس کا نظامِ نفقات زندگی کے ہر مرحلے میں اس کی دادرسی کے لیے موجود ہے۔ بچپن میں اس کی کفالت کی ذمے داری باپ پر ہے، جوانی اور نکاح کے بعد شوہر اس کا ذمے دار ہے، طلاق یا بیوگی کی صورت میں  باپ اور بھائیوں کی ذمے داری ہے کہ اس کی کفالت کریں، بچے بڑے ہوگئے ہوں تو وہ اپنی ماں کی خدمت کریں۔ یہ لوگ اگر اپنے فرائض سے غفلت برت رہے ہوں تو انہیں پابند کیا جانا چاہیے، اس لیے کہ خونی رشتے کی وجہ سے ان کی ذمے داری بنتی ہے۔ اس کے بجائے ایک ایسے شخص پر پورا بار ڈال دیا جائے جس سے اب اُس عورت کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا ہے، یہ اُس شخص پر ظلم ہے۔ اور ظلم بہر حال ظلم ہے، چاہے عورت پر کیا جائے یا مرد پر۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)

Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)

Discover more from ہمارا اخبار

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading