یہ برق رفتاری سے گزرتے ہوئے ماہ وسال، یہ شور و غل میں مصروف انسانی زندگی کے شب و روز، یہ برف کی طرح پگھلتے ہوئے زندگی کے لمحات، اور آسمانوں پر کسی نئے جہان کی کھوج میں مشغول انسان اور انسانیت۔ ان تمام ہنگاموں کے بیچ، ایک بار پھر اپنے مقصد وجود سے آشنا کرانے، دنیا کے ہنگاموں کی گرد سے اٹے قلب و نظر کو جلا بخشنے، گناہوں سے لت پت انسانوں کے اعمال کے دفتر کو نیکیوں کی بہار سے آشنا کرانے کے لیے ایک عظیم الشان مہینے کی آمد آمد ہے۔
ویسے اس کی آمد کوئی نئی بات نہیں ہے۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی یہ مہینہ دنیا میں رہنے اور بسنے والے انسانوں کے درمیان آئے گا اور زمانے کو ایک نئے رنگ میں رنگ دے گا۔ مسجدیں رکوع و سجود کرنے والوں سے ابل پڑیں گی۔ افطار اور سحر کی تیاریوں میں مسرور فضائیں ہوں گی۔ بہت سے نئے چہروں کا مسجد میں دیدار بھی ہوگا۔ ایک قابل رشک نور ہر طرف جھلک رہا ہوگا، جسے دیکھ کر دل جھوم اٹھے گا۔ اور دل سے دعا بھی نکلے گی کہ اے پروردگار اس پرنور ماحول کو کبھی ختم نہ ہونے دینا۔ مگر افسوس کہ یہ پرنور ساعتیں بھی اگلے سال تک کے لیےغائب ہوجائیں گی۔ گویا موسم بہار کے بعد ایک طویل خزاں کا دور دورہ ہوگا۔
کاش کہ یہ امت اس عظیم مہینے کی روح اور اس کے حقیقی مقصد کو سمجھ پاتی۔ یہاں اذانوں کی صدائیں تو ہیں لیکن قلب پر اس کا اثر نظر نہیں آتا۔ یہاں تراویح میں قرآن کی تلاوت کا ترنم تو ہے مگر محلوں میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ ہم ہر سال اس مہینے کو اسی طرح گزارتے ہیں۔ بلکہ ہر گزرتے ہوئے سال کے ساتھ اس عظیم مہینے سے انسانی وجود پر جو نقوش مرتب ہوتے ہیں یا ہونے چاہئیں ان میں بھی اچھی خاصی کمی نظر آتی ہے۔ ہم نے اپنے آبا و اجداد کو دیکھا تھا کہ چاہے امیر ہوں یا غریب، بیمار ہوں یا صحت مند، عمر رسیدہ ہو یا نوجوان، کم از کم اس مہینے کا تو ضرور احترام کیا کرتے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ آج کے دور کے مسلمان اس کا احترام نہیں کرتے۔ مگر یہ بات تو ہے کہ ویسا نہیں کرتے جیسا پہلے کے لوگ کیا کرتے تھے۔
آپ کو شاید میری یہ بات اچھی نہ لگی ہو۔ بہرحال حقیقت سے نظر چرائی نہیں جا سکتی۔میرے ایسا کہنے کے پیچھےبہت سی وجوہات ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے گذشتہ سال کے رمضان مبارک کی ہمارے تاریخی شہر حیدرآباد کے مسلم محلوں کے واقعات اور خبریں۔ ایک کے بعد ایک، ایسے ایسے واقعات۔ جنھیں دیکھ کر روح شرم سے پانی پانی ہو جاتی ہے۔ قلب و ذہن مضطرب ہو جاتے ہیں۔ان حالات کو دیکھ کر یہ سوال بار بار بیچین کر رہا تھا کہ کیا یہ وہی مسلمان ہیں جو محمد عربی ﷺ کے ماننے والے ہیں۔ کیا یہ وہی عشق رسول کے دعوے دار ہیں۔
کہیں قتل کی وارداتیں تھیں۔ تو کہیں عصمت ریزی کے سانحات۔کہیں سسرال والوں کے ذریعے کسی بیٹی کا قتل۔ تو کہیں زکوٰۃ کے پیسے لے جانے والی خاتون سے پیسوں کا چھن جانا۔ کہیں کسی کو اغوا کر لینے کی خبریں۔ تو کہیں کسی مسجد سے سامان چوری ہونے کی ویڈیوز۔ایسا نظر آرہا تھا گویا انسان کو شیطان کے بہکاوے کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی۔شاید شیطان انسان کو اشرف المخلوقات سے حیوان بنانے میں کام یاب ہو گیا ہے۔
جب ہماری عبادتیں محض رسمی ادائیگی کا مظہر بن جائیں تو شاید معاشرے کی یہی تصویر ابھرتی ہوگی۔
آپ کو شاید یہ لگ بھی رہا ہوگا کہ میں اس عظیم مہینے کی عظمت پر کچھ کہتا۔ یا پھر ان کے فیوض و برکات پر اپنے قلم کی سیاہی کو وقف کر دیتا۔ میرے ایسا کرنے سے اس کی شان میں کوئی بال برابر بھی فرق نہیں ہوگا۔ اور شاید دنیا کا کوئی بھی مصنف چاہے کتنے ہی اوراق اس کی عظمت کے بیان پر وقف کردے پھر بھی اس کی شان کا مکمل حق ادا نہیں کرسکےگا۔
اس مہینے میں اجر کےکئی گنا بڑھ جانے کی باتیں۔ اس مہینے میں نیک کاموں کی عظمت کا بیان۔ اور اس عالیشان پروردگار کی بےپناہ رحمتوں کے نزول کے تذکرے۔ ان سب باتوں کو آپ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کسی مسجد میں، اخبار میں اور کئی رسالوں کے ذریعے ضرور سنیں گے اور پڑھیں گے۔ اور سن سن کر آپ کو کئی چیزیں یاد بھی ہوجائیں گی
اس لیے میں یہاں ان سب کا تذکرہ کیے بغیر ان اہم نکات اوراس تربیت سے درکار نتائج پر آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ قرآن مجید اس عظیم مہینے کے بارے میں کہتا ہے:
“رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔ لہٰذا اب جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس کے (پورے مہینے کے روزے رکھے۔( سورة البقرہ: 185)
اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ رمضان مبارک کی ساری عظمت، اہمیت و افادیت، فیوض و برکات اسی ایک وجہ سے ہیں کہ اس عظیم مہینے میں ایک عظیم الشان کتاب کا نزول ہوا۔ گویا عام لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ مہینہ جشن قرآن کا مہینہ ہے۔ایک ایسی کتاب ہدایت کا جشن، جس کے عظیم پیغام کو جس جس نے بھی اپنے سینے سے لگایا۔ وہ ہر دور میں فاتح بن کر اُبھرا۔ فاتح بن کر ہی اس دنیا سے گیا۔
یہ وہی کتاب ہے۔ جس نے عرب کی صدیوں سے چلتی ہوئی تہذیب، قبائلی عصبیتیں، نسل پرستی، اپنے ہی جیسے انسانوں کی غلامی میں سسکتے انسان، مردوں کی اجارہ داری میں اپنے وجود کی بقا کے لیے تڑپتی خواتین، اور بے زبان ننھی شہزادیوں کو دفناتے، بے رحم باپ اور ایک نہایت ہٹ دھرم معاشرے کا رویہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ یہی عرب جب اس کتابِ ہدایت کے اصولوں کو اپنے سینے سے لگایا تو ان میں سے اس کتاب نے ایسے مثالی رہ نماؤں کو اٹھا کھڑا کیا کہ رہتی دنیا تک بھی اس کی کوئی نظیر ہم کو نہیں مل سکتی۔ یہ وہی کتاب ہے جس نے ان کے دلوں کو ایسی شجاعت سے سرشار کیا کہ بڑی سی بڑی طاقتیں بھی ان کی ایمانی قوت کا مقابلہ نہ کرسکیں۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی عظیم الشان کتاب جو صدیوں سے ہمارے گھروں کے محرابوں کی زینت بنی ہوئی ہے ایسا غیر معمولی اثر ہم پر یا ہمارے معاشرے پر کیوں مرتب نہ کرسکی۔ یہ ایک اہم سوال ہے اور بہت قابِل غور سوال بھی۔
روئے ارض پر سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب یہی ہے۔ لیکن بدقسمتی ہے کہ سب سے زیادہ بِنا سمجھے پڑھی جانے والی کتاب بھی یہی ہے۔ ہم اپنی تمام تر محنت اس کی تلاوت کو مزین کرنے، اس کے الفاظ کو بہترین پیرائے میں ادا کرنے پر وقف کردیتے ہیں۔ مگر کاش کہ اس کے مفہوم کو سمجھنے پر بھی ہم اتنی ہی توجہ دے پاتے۔ صدیوں سے ہمارے درمیان یہ غلط فہمی رائج کردی گئی کہ اس کتاب کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ کسی عالم کی رہ نمائی کے بغیر اس کو سمجھنا ناممکن ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس دنیا کو بنانے والا غفور الرحیم پروردگار کوئی ایسا پیغام اس کے بندوں تک بھیجا ہو جس کو سمجھنے میں ان کو مشقت اُٹھانی پڑے۔ خدا را اس غلط فہمی کو دور کیجیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔ یہ وہی کتاب ہے جس کو عرب کے امیوں نے بخوبی اور بہ آسانی سمجھا جو اپنے دور کے کوئی بڑے ماہر ادبیات بھی نہیں تھے۔ یہ قرآن ایک ایسا سمندر ہے جس میں غوطے لگانے والا کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں آتا۔ اس کے اندر میں ایسے ایسے جوہر ہیں کہ جو جتنا گہرائی میں اترے گا اتنا اس سے مالا مال ہوگا۔ جب ہم اس کو سمجھنے کے سفر کا آغاز کریں گے تو یہ ایسے ایسے بیش قیمتی خزانوں سے ہمیں آشنا کرائے گا جس کو دیکھ کر ہم ششدر رہ جائیں گے۔ کبھی یہ دنیا کی زندگی کی حقیقتوں سے پردہ اُٹھا کر ہماری آنکھیں اشکبار کرے گا۔ توکبھی اپنے رب کی بے پناہ نعمتوں کے ذکر سے قلب کو سرشار۔ لیکن جتنا ہم اس کو سمجھیں گے اتنا اس رب کائنات کے قریب ہوں گے۔ جب ہم اُس کا قرب حاصل کر لیں گے تو پھر کسی چیز کے چھن جانے کا دکھ نہیں ہوگا۔ نا کسی چیز کے لُٹ جانے کی فکر۔ وہ رب ہمیں کبھی تنہا ہونے کا احساس ہی نہیں ہونے دے گا۔ زندگی کے کٹھن سے کٹھن مرحلے میں بھی اُس کے ساتھ ہونے کا احساس انسان کی شخصیت کو ہمیشہ کے لیے بدل دے گا۔ انسان کا ہر کام ہر فعل اس کی رضاجوئی کے حصول میں لگ جاے گااور تب وہ ہدایت کی روشنی انسان کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے قلب کو پرنور کردے گی۔
رمضان، روزہ، حج، زکوات اور ہمارے تمام مراسمِ عبودیت کا حاصل یہی ہے کہ اُس رب کائنات کا قرب ہمیں حاصل ہوجائے۔ خوش نصیب ہے وہ انسان جس کو الله تعالی اس دنیا میں اس عظیم دولت سے نوازتا ہے۔
افسوس اسی بات کا ہے کہ ہم سب اس دوڑ میں لگے ہوئے ہیں کہ ہماری قرآن کی تلاوت مکمل ہوجائے۔ چاہے وہ تین دن کی تراویح میں ہو یا پھر ستائیس دن کی۔ ہمارے روزے گزر جانے چاہئیں، سوتے ہوئے ہوں یا کاروبار میں مشغول۔ پھر ہمارے صدقات بھی ادا ہوجانے چاہئیں، چاہے دکھاوا کرکے ہو یا پھر احسان جتا کر۔
جب تک ہم ان تمام عبادت کا مقصد اورمفہوم نا سمجھ لیں۔ ہزاروں رمضان بھی ہمارے معاشرہ میں تبدیلی نہیں لاسکتے۔ ہم نے اس مہینے میں نازل ہونے والی کتاب کا حق ادا نہیں کیا۔ ہم نے دنیا پر یہ واضح نہیں کیا کہ یہ مہینہ، نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ اور یہ کتاب ایک غیر معمولی کتاب ہے۔ ایک مرتبہ کسی برادران وطن نے مجھ سے پوچھا کہ تمھاری حلیم والی عید کب آرہی ہے؟ وہ مہینہ کب آ رہا ہے جس میں تم لوگ ڈھیر ساری چیزیں کھاتے ہو۔ ایسے سوال سن کر ہمیں افسوس ہونا چاہیے اور غم بھی۔ ہم نے اس مہینے کی کیسی تصویر ہمارے غیر مسلم دوستوں کو دکھائی اس بات پر افسوس۔ کاش ہم ان کو یہ بتا سکتے کہ یہ ایک عظیم انسانوں کی کتاب ہدایت کے نزول کا مہینہ ہے۔ مگر ہم ایسا سمجھانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ الفاظ سے بھی اور اعمال سے بھی۔
آئیے اس رمضان کو ایک بدلا ہوا رمضان بنائیں۔ ایک ایسا رمضان جو ہمیں اپنے رب کا قرب عطا کرسکے۔ آئیے اس کتابِ ہدایت کے پیغام کو اپنے سینوں میں پیوست کرلیں۔ پھر اپنےآپ کو اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو اس کے نور سے منور کردیں۔
اگر اب بھی ہم نے اس کتاب کو نہیں اپنایا تو دنیا کی کوئی طاقت بھی ہمیں نہیں بدل سکتی۔
ایسے روایتی کئی رمضان بھی ہمیں کام یابی کی ڈگر پر نہیں لاسکتے۔ ہم نے اس مہینے کی ہر عبادت کو عوامی بنادیا۔ مثال کے طور پر قیام اللیل کو ہی لیجیے یہ ایک بیش قیمت عبادت ہے۔ ایک ایسی میٹنگ جو صرف بندے اور اس کے آقا کے درمیان خفیہ ملاقات ہے۔ یہ سحر کے وہ پرنور لمحات ہیں جن میں بندہ اپنی اشک بار آنکھوں سے اپنے مالک کے حضور اپنی التجا اور فریاد لے کر پہنچتا ہے۔ ہم نے اسے بھی اجتماعی کرکے اس کے اثر کو کم کردیا۔ کم سے کم کچھ ایسے لمحات ضرور ہونے چاہئیں جن میں ہم اور صرف وہ ہو، باقی کوئی نہ ہو۔ وہ ہماری بات سنے اور اس کا جواب دے۔ آزما کر دیکھیے اس عبادت کو اس طریقے سے۔ وہ رب سنتا بھی ہے اور جواب بھی دیتا ہے۔ اور ہم اشاروں میں اس کے دیے ہوئے جوابوں سے خوشی سے جھوم اُٹھیں گے۔
خدارا عبادت کی رسمی ادائیگی سے آگے بڑھ کر اس کی روح پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انشاءاللہ جب ایسا ہوجائے گا تو یہ رمضان کی فضائیں ہمارے محلے اور زندگیاں بدل دیں گی۔ اور ہماری خودی نا قابلِ فراموش منزلوں پر پہنچ جائے گی۔ ورنہ ہمارے معاشرہ کی تصویر اقبال کے اس شعر کی مصداق رہے گی:
رہ گئی رسم اذان روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)