سہیل بشیر کار
” خدا تک کا سفر” یاسمین مجاہد کی مشہور کتاب reclaim your heart کا ترجمہ ہے۔ کتاب 9 مضامین پر مشتمل ہے؛ جن میں پہلے چار مضامین انتہائی اہم ہیں۔ یہ مضامین ہمیں خدا تک پہنچانے والی راہ بتاتے ہیں۔ پہلے مضمون "وابستگان” میں مصنفہ کہتی ہے کہ ہمیں جو وابستگیاں اختیار کرنے کی عادت ہے؛ اس کے کیا کیا نقصان ہیں۔ کوئی بھی رشتہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا۔ حد سے زائد وابستگی ہمیں ٹوٹ کر رکھ دیتی ہے۔ مصنفہ لکھتی ہیں :
” لیکن قصور ان لوگوں کا بھی نہ تھا جو مجھے توڑتے تھے؛ ان پر الزام دھرنا ایسا ہی ہوگا جسے کشش ثقل پر الزام دھرا جائے کہ برتن اس کی وجہ سے ٹوٹا ہے۔ ہم کسی کمزور شاخ کا سہارا لیں اور وہ ٹوٹ جائے تو ہم طبیعات کے قوانین کو اس کے لئے موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ اس شاخ میں اتنی قوت ہی نہ تھی کہ ہمارابوجھ سہار سکتی۔
ہمارا بوجھ صرف ہمارے رب کو اٹھانا تھا۔ قرآن میں ہمیں بتایا گیا ہے: ‘جو اللہ تعالی کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کر کے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالی سننے والا اور جاننے والا ہے۔“ (سورہ بقرہ : ۲۵۶) اس آیہ مبارکہ میں ایک نہایت اہم سبق پوشیدہ ہے :’ یہ کہ صرف ایک ہی ساتھ ہے جو کبھی چھوٹتا نہیں۔ ایک ہی ذات ہے جس پر ہم ہر حوالے سے تکیہ کرسکتے ہیں۔ ایک ہی تعلق ایسا ہے جسے ہماری خود توقیری کا تعین کرنا چاہئے اور ایک ہی وسیلہ ایسا ہے جس کے ذریعے ہمیں اپنی کامل خوشی، تسکین، اور تحفظ کی تلاش کرنی چاہئے۔ یہ ساتھ، یہ ذات، یہ تعلق، یہ وسیلہ ہمارے رب کا ہے۔ "(صفحہ 11) اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان کو تعلقات برقرار نہیں رکھنے ہونگے بلکہ مطلوب یہ ہے کہ آپ کا میل ملاپ لوگوں سے رہے لیکن باطنی طور پر اپنے دل کا رخ اللہ کی طرف موڑیے؛ صرف اسی سے لو لگائیں۔ مصنفہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خوبصورت الفاظ سے قاری کو آگاہ کراتی ہیں: "میں یکسو ہو کر اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔” (سورہ الانعام : ۷۹)
لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام اس منزل تک اپنے سفر کو کس انداز سے پیش کرتے ہیں؟ وہ چاند، سورج اور ستاروں پر غور کرتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ کامل نہیں ہیں۔ یہ غروب ہو جاتے ہیں۔ یہ ہمیں مایوس کرتے ہیں۔
اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنا رخ صرف اللہ کی طرف کرنے کے مقام تک پہنچ گئے۔ ان کی طرح ہمیں بھی اپنی ہر امید، ہر یقین، اور ہر انحصار صرف اور صرف اللہ سے وابستہ کرنا چاہئے۔ اور اگر ہم ایسا کر گزریں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ دل کے سکون اور ثبات کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ تب ہی نشیب و فراز کا وہ سلسلہ ختم ہوگا جس نے اس وقت تک ہماری زندگی کو اپنا مرکز بنا رکھا ہے۔ ” (صفحہ 17)
مصنفہ سمجھاتی ہے کہ ہمیں اطمینان اور سکون حاصل کرنے کا ذریعہ اللہ رب العزت سے اپنے تعلق کو بنانا ہوگا۔ یہی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ اللہ رب العزت کی ذات ہی ہے جو ناقابل تسخیر ہے۔ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایک قول مبارکہ سے قاری کو یہ بات ذہن نشین کراتی ہیں۔ لکھتی ہیں: "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہوا تو لوگ صدمے میں آنے اور اس رب کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہوگئے۔ اگرچہ کس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ابوبکر کے جیسی محبت نہ تھی لیکن انہیں بخوبی علم تھا کہ انسان کو اپنا واحد آسرا کس ذات کو بنانا چاہئے۔ انہوں نے فرمایا:
"اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتے تھے تو جان لو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم انتقال کر چکے ہیں۔ لیکن اگر تم اللہ کی عبادت کرتے تھے تو جان لو کہ اللہ کو کبھی موت نہیں آئے گی۔”(صفحہ 18)
مصنفہ قاری کو سمجھاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں بے شمار نعمتیں دی ہیں؛ یہاں بہت سے اشیاء ہیں جن کو دیکھ کر انسان کو کائنات میں غور و فکر کرنا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ تخلیق کے حسن اور شوکت کو اپنے دل میں اتارے، مگر یہاں رکنا نہیں دنیا کے حسن میں گم نہیں ہونا ہے بلکہ یہ دیکھیے کہ اگر تخلیق اتنی پرشوکت، اتنی عظیم اتنی حسین ہے تو خالق کتنا پر شوکت اور عظیم اور خوبصورت ہوگا اور آخر کار انسان کے دل کی پکار یہ ہوگی ‘اے ہمارے پروردگار تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا تو پاک ہے۔ ‘ (سورہ آل عمران؛ آیت 191)
مصنفہ کہتی ہیں کہ اپنے دل کو جھوٹی وابستگیوں سے خالی کرنے کی جدوجہد اس دنیا کی سب سے بڑی جدوجہد ہے۔ اسلام کے پانچوں ارکان کلمہ شہادت، نماز،، زکواۃ، روزہ اور حج بنیادی طور پر وابستگی ختم کرنے کے بارے میں ہی ہیں اور اسی کے اسباب پیدا کرتے ہیں۔
قاری کو کوئی غلط فہمی نہ ہو مصنفہ سمجھاتی ہے: "دنیا سے علیٰحدگی اختیار کرلینے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم دنیاوی چیزیں اپنی ملکیت میں نہیں رکھ سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ کئی جلیل القدر اصحاب دولتمند تھے۔ اس کے بجائے، دنیا سے علیحدگی کا مطلب یہ ہے کہ ہم دنیا کو اس کی حقیقی شکل میں دیکھیں اور اسی اعتبار سے اس کے تعلق رکھیں یعنی اسے محض ایک ذریعہ سمجھیں، مقصود نہیں۔ جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے نہایت خوبصورت الفاظ میں بیان کیا: ” علیحدگی اختیار کر لینے کے مطلب یہ نہیں کہ آپ کی ملکیت میں کچھ نہ ہو، بلکہ یہ کہ کوئی چیز آپ کی مالک نہ بنے۔ ” (صفحہ 48)
باب کا اختتام اس خوبصورتی سے کرتی ہیں :”جب تک آپ کی اجازت نہ ہو، یہ دنیا آپ کو توڑ نہیں سکتی۔ اور جب تک آپ خود اس کے ہاتھ میں چاہیاں نہ تھما ئیں، خود اپنا دل اس کے حوالے نہ کریں، یہ آپ پر قابض نہیں ہو سکتی۔ اس لئے اگر تم نے کچھ وقت کے لئے چابیاں دنیا کو دے دی تھیں تو انہیں واپس لے لو۔ یہ انجام نہیں۔ ضروری نہیں کہ تمہاری موت یہیں واقع ہو۔ اپنا دل بازیاب کرالو اور اسے اس کے حقیقی مالک کے حوالے کر دو۔ اللہ کے حوالے کر دو۔” (صفحہ 54)
محبت انسان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے، لیکن یہ محبت بدترین قید خانہ تب بن جاتا ہے جب اس محبت کا محور انسان کی ذات بن جاتی ہے؛ مصنفہ لکھتی ہیں :” بطور انسان ہمیں ایک مخصوص فطرت پر تخلیق کیا گیا ہے خدا کی وحدانیت کو پہچانا اور اپنی زندگیوں میں اس صداقت کو مجسم کرنا ہماری فطرت ہے۔ لہذا کوئی آفت کوئی نقصان، کوئی ایسی چیز نہیں جو ہمیں اس سے زیادہ اذیت دے جو کہ ہمیں اس وقت پہنچتی ہے جب اپنی زندگی میں یا اپنے دل میں کسی کو خدا کے برابر ٹھہرا لیتے ہیں۔ شرک کسی بھی سطح کا ہو، انسانی روح کو یوں توڑ ڈالتا ہے کہ کوئی اور المیہ اسے اس انداز میں تو ڑ نہیں سکتا۔ کسی چیز سے یوں محبت کی جائے، یوں مقدس ٹھہرایا یا اس کے سامنے یوں سجدہ ریز ہوا جائے جیسا کہ صرف خدا کے سامنے ہونا چاہئے تو روح مڑتڑ کر ایک ایسی شکل میں ڈھل جاتی ہے جو کہ اس کی فطرت میں ہی نہیں۔ اس صداقت کی حقیقت کو دیکھنے کے لئے صرف اتنا دیکھ لینا کافی ہے کہ جب کسی انسان سے اس کا معبود چھن جائے تو اس کا کیا حال ہوتا ہے۔”(صفحہ 56)
مصنفہ سمجھاتی ہے کہ ہمیں اپنا معبود اس کو بنانا چاہیے جو بے عیب ہو؛ لامتناہی ہو اور کسی کمزوری سے پاک ہو اس سلسلے میں مصنفہ یونس علیہ السلام کے تجربے کو اپنے ذہن میں بٹھانا نہایت اہمیت کا حامل بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے تو ان کے پاس باہر آنے کا صرف ایک راستہ تھا اور وہ یہ کہ پوری طرح سے اللہ سے رجوع کیا جائے۔ اللہ کی توحید اور انسانی کمزوری کا ادراک ہو آپ کی دعا اس صداقت میں نہایت جامع انداز میں بیان کرتی ہے: ‘تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے۔ "(سورہ انبیاء آیت 87)ہم میں سے بہت سے بھی اپنی خواہشات اور جھوٹے معبودوں کی مچھلی کے پیٹ میں قید ہیں۔ ہم اپنے نفس کے غلام بنے ہوئے ہیں اور یہ قید اس وجہ سے ہے کہ ہم نے اپنے دلوں میں اللہ کے علاوہ دوسری چیزوں کو جگہ دے دی ہے۔ ایسا کرکے ہم کسی بھی دنیاوی قید خانے سے زیادہ برا اور زیادہ اذیت ناک قید خانہ تشکیل دیتے ہیں کیونکہ دنیاوی قید خانہ ہم سے وہی چھین لیتا ہے جو حتمی و قطعی ہے؛ لامتناہی ہے اور کسی بھی عیب سے پاک ہے یعنی اللہ اور اس کے ساتھ ہمارا تعلق، اس باب میں مصنفہ ہمیں محبت کے بہت سے نئے پہلوؤں سے آگاہ کراتی ہے۔ ساتھ ہی اس سوال کا جواب بھی دیتی ہے کہ اپنی پسندیدہ چیز کو اللہ کی پسندیدہ چیز کے لیے قربان کردینے میں ہمیں اتنی مشکل کیوں آتی ہے۔ مصنفہ آسان مثالوں سے اپنی بات سمجھاتی ہے۔ اس باب کے آخر میں مصنفہ امت مسلمہ کے ایک بڑے مسئلہ "وھن” کے بارے میں لکھتی ہیں: "بہ حیثیت امت، ہمارے سب سے بڑے مسائل میں سے ایک کی نشاندہی ایک حدیث نبوی میں
کی گئی ہے : ” الوھن “ یعنی دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔ ہم دنیا کی محبت میں مبتلا ہو گئے ہیں، اور۔ جب بھی آپ محبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو اس محبت پر قابو پانا یا اس سے الگ ہونا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے تا وقتیکہ آپ اس سے بہتر کسی چیز کی محبت میں مبتلا نہ ہو جا ئیں۔ دنیا کی اس تباہ کن محبت کو اپنے دلوں سے نکالنا تقریباً ناممکن ہے تا وقتیکہ اس کی جگہ لینے کے لئے ہمیں کوئی بہتر چیز مل جائے۔ کسی سے زیادہ شدید محبت ہو جائے تو پرانی محبتوں کو دل سے نکالنا آسان ہو جاتا ہے۔ جب اللہ کی محبت، اللہ کے رسول کی محبت اور اللہ کے ہاں اپنے گھر کو حقیقی معنوں میں دیکھ لیا جائے، تو یہ کسی بھی اور محبت پر غالب آ جاتی ہے۔ اس محبت کا مشاہدہ جتنا زیادہ ہوگا، اس کے غلبے میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔” (صفحہ 77)
کتاب کے تیسرے باب "ایک کامیاب شادی:گمشدہ کڑی میں” مصنفہ کہتی ہے کہ دور جدید کی تحقیقات اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ کامیاب شادی کے لئے جو اصول ضروری ہے وہ یہ کہ عورت مرد کا احترام کریں اور مرد عورت سے محبت کریں۔
کتاب کے چوتھے باب "مشکلات "میں مصنفہ لکھتی ہیں کہ بندوں پر جو مشکلات آتے ہیں ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بندہ اللہ کی پناہ میں آجائے، آزمائش کے بارے میں ایک اصول یہ ہے کہ اللہ جنہیں عزیر رکھتا ہے ان کو آزماتا ہے۔ کتاب کے پانچوں باب "بند دروازے اور اندھا کر دینے والے واہمے” میں مصنف نے قرآن مجید کی آیات، احکام نبوی اور روز مرہ کی مثالوں سے سمجھایا ہے کہ اللہ رب العزت جب ہم سے کوئی چیز چھین لیتا ہے تو یہ بندہ کے لیے اہم ہوتا ہے۔ ہم پر جو مصائب آتے ہیں ان کا مقصد ہمیں جگانا ہوتا ہے لکھتی ہیں :”یہ مفروضہ آفات درحقیقت ہمیں جگانے کا کام کرتی ہیں۔ یہ ہمارا غرور توڑتی ہیں۔ ہمیں ہلا کے رکھ دیتی ہیں۔ ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہم کتنے حقیر ہیں اور اللہ کتنا بڑا ہے۔ اور اس طرح یہ ہمیں ہمارے مغالطوں، ہماری بے خبریوں، ہماری آوارہ گردیوں کی نیند سے بیدار کر دیتی ہیں اور ہمیں ہمارے خالق کی طرف واپس لے آتی ہیں۔ مصائب ہماری آنکھوں پر پڑا اطمینان کا پردہ نوچ پھینکتے ہیں، اور ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم کیا ہیں اور کہاں جا رہے ہیں۔”(صفحہ 109) قران کریم میں پیغمیروں کے قصوں سے ہمیں سمجھایا گیا ہے کہ ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیے۔ کتاب کے چھٹے باب میں مصنفہ نے خدا تک کے سفر میں نماز اور روزہ کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ مصنفہ نے بہت ہی خوبصورت طریقے سے نماز اور روزہ کی اہمیت بیان کی ہے۔ ساتویں باب "عورت کا مقام” میں مصنفہ نے لکھا ہے کہ عورت کو عورت رہتے ہوئے عظیم مقام حاصل ہے، عورت کو مرد کی نقالی نہیں کرنی چاہیے۔ آٹھویں باب” امت "میں مصنفہ نے بتایا کہ کس طرح ہمیں مختلف ناموں کے تحت تقسیم کیا جا رہا، اس وجہ سے ہمیں کیا کیا نقصانات ہو رہے ہیں۔ کتاب کے آخری باب” شاعری” میں مصنفہ نے حمد و ثنا بیان کی ہے۔ یہ شاعری قاری کا تعلق اللہ سے بڑھاتی ہے۔
کتاب میں قرآن کریم کے آیات کی خوبصورت تشریح ہے۔ مصنفہ سورہ الم نشرح آیت 5″ پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ ” کی تشریح اس طرح کرتی ہیں :”میرا خیال ہے کہ بلوغت کی منازل طے کرنے کے دوران میں اس آیت کا غلط مطلب لیتی رہی۔ میں سمجھتی تھی کہ اس کا مطلب ہے کہ مشکل کے بعد آسانی آتی ہے۔ یہ الفاظ دیگر، میرا خیال تھا کہ زندگی اچھے اور برے وقتوں سے مرکب ہے۔ برے وقت کے بعد اچھا وقت آتا ہے۔ میں اسے یوں سمجھتی تھی جیسے زندگی یا پوری طرح سے اچھی ہوتی ہے یا پوری طرح سے بری۔ مگر اس آیت کا مفہوم یہ نہیں۔ یہ آیت کہہ رہی ہے کہ مشکل کے ساتھ آسانی آتی ہے۔ یعنی مشکل اور آسانی دونوں کا ظہور بیک وقت ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں کوئی بھی چیز بھی مکمل طور پر بری یا مکمل طور پر اچھی نہیں ہوتی۔ ہر کٹھنائی میں بھی کوئی نہ کوئی چیز ایسی ہوتی ہے کہ جس پر اللہ کاشکر ادا کیا جا سکتا ہے۔ مشکل کے ساتھ اللہ ہمیں اسے برداشت کرنے کی قوت اور صبر بھی عطا کرتا ہے۔”(صفحہ 20)
مصنفہ نے کتاب میں قرآن کریم کے باریک نکات کو خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ سورہ العنکبوت آیت 64 کے تحت لکھتے ہیں:”اس دنیا کے بارے میں بات کرتے ہوئے اللہ عربی لفظ ” حیات” استعمال کرتا ہے لیکن اگلی زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی اس سے کہیں زیادہ بڑا مفہوم پیش کرنے والا لفظ "الحیوان” استعمال کرتا ہے۔ اگلی زندگی حقیقی زندگی ہے۔ حقیقت سے بڑھ کر زندگی ہے۔ حقیقی شکل ہے۔ اور پھر اللہ ان الفاظ کے ساتھ آیت کا اختتام کرتا ہے: ” کاش یہ جانتے ہوتے۔ اگر ہم اصلی زندگی کو دیکھ لیں تو کمتر اور نقلی نمونے کے لئے اپنی محبت پر قابو پانا آسان ہو جائے۔” ایک اور آیہ مبارکہ میں اللہ کا ارشاد ہے :
"لیکن تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ اور آخرت بہت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔“ (سورہ الاعلیٰ : ۱۷ ۱۶)
اصلی شکل معیار میں بھی بہتر ( خیر) ہے اور مقدار میں بھی (ابقی )۔ اس دنیا میں ہماری پسندیدہ چیز کتنی بھی اچھی کیوں نہ ہو، معیار اور مقدار کے حوالے سے اس میں کوئی نہ کوئی نقص ضرور ہوگا۔
کتاب کا خوبصورت ترجمہ عظیم احمد صاحب نے کیا ہے۔ کتاب کی طباعت اعلی ہے۔ 207 صفحات کی کتاب کی قیمت 300 روپے مناسب ہے۔ کتاب فون نمبر 9960778991 سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
رابطہ: suhailkar123@gmail۔com